Quantcast
Channel: نقطۂ نظر
Viewing all articles
Browse latest Browse all 10

'وہم' سے 'علم' تک

$
0
0

ابوالحسن علوی

دین ودنیا میں عام طور پر کسی بھی علم کے حصول کے لیے معتبر بنیادی ذرائع صرف دو ہی ہیں:
١۔ براہ راست مشاہدہ و حواس خمسہ(five senses) سے حاصل شدہ علم
٢۔ خبر سے حاصل شدہ علم
پہلا ذریعہ سائنس اور اہل مغرب کے ہاں اصل اور معتبر ذریعہ شمار ہوتاہے اگرچہ وہ دوسرے ذریعہ کو بھی استعمال کرتے ہیں مثلاً بازار میں جاتے ہوئے آپ نے دیکھا کہ ایک شخص کو سرعام کچھ افرادنے قتل کر دیاہے، اب آپ کو اس شخص کے قتل ہونے کا علم براہ راست مشاہدے سے ہوا ہے۔
دوسرا ذریعہ اہل دین و مذہب کے ہاں بنیادی ذریعہ شمار ہوتا ہے اگرچہ وہ پہلے ذریعہ سے بھی حجت پکڑتے ہیں۔ درج بالا مثال میں یہ بھی ممکن ہے کہ آپ جائے وقوعہ پر موجودنہ ہوں اور آپ کو متعلقہ شخص کے قتل کی خبر مل جائے۔ یہ خبر بعض اوقات ایک شخص کے ذریعے پہنچتی ہے اور بعض اوقات دو، تین، چار یا ایک بہت بڑی تعداد کے ذریعے۔ بعض اوقات اس اطلاع کے آپ تک پہنچانے والے قابل اعتماد یا متقی وپرہیزگار یا صادق ہوتے ہیں جبکہ بعض صورتوں میں یہ ناقلین ناقابل اعتماد یا جھوٹے یا مشکوک ہوتے ہیں۔ مخبرین کی تعداد یا اوصاف کیسے ہی کیوں نہ ہوں،دنیا اس کو خبر ہی کہتی ہے۔
حصول علم کے مذکورہ بالا ذرائع کے علاوہ دو اور ذرائع بھی بہت معروف ہیں:
٣۔ وحی والہام یا کشف وجدان
٤۔ عقل
انبیا پر نازل کی جانے والی وحی بھی اللہ ہی کی طرف سے ایک خبر ہوتی ہے۔ اکثر اوقات یہ وحی حضرت جبرئیل علیہ السلام کی طرف سے بطور خبر نازل ہوتی تھی جبکہ بعض اوقات یہ وحی خواب کی صورت میں بھی ہوتی ہے۔ کسی نبی کا خواب بھی مشاہدہ و خبر ہی کی ایک ملی جلی قسم ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا تھا کہ آپ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ عمرہ کر رہے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو خواب میں ذبح کرتے دیکھا۔ اسی طرح بعض اوقات ایک عام شخص کو بھی بذریعہ خواب کسی بات کا علم ہو جاتا ہے جسے 'رویا صادقہ' یا 'مبشرات' کہا جاتا ہے لیکن ایک نبی اور عامی کے خواب میں اصل فرق یہ ہے کہ نبی کا خواب دوسروں کے حق میں بھی وحی وحجت کا درجہ رکھتا ہے جبکہ ایک عامی کا خواب خود اس کے لیے تو کسی اہمیت کا حامل ہو سکتاہے لیکن دین میں کسی دوسرے شخص کے لیے کوئی شرعی دلیل نہیں بن سکتا۔
انبیا کے لیے علم کے حصول کی ایک خاص شکل 'الہام' بھی ہے یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کسی نبی کے دل میں کوئی بات ڈال دیں۔ انبیا کا یہ الہام وحی ہونے کی حیثیت سے ایک شرعی دلیل ہے۔ عام افراد کے لیے بھی اس عمل کو اصطلاحاً وجدان یا الہام ہی کہتے ہیں۔ دین اسلام میں غیر ِ نبی کے وجدان یا الہام کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے اگرچہ صوفیاکے ایک قلیل طبقے نے اس کو ایک مستند ذریعہ علم قرار دیا ہے۔ مثلاً اگرکوئی شخص یہ کہتا ہے کہ مجھے اللہ سبحانہ و تعالیٰ یا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات الہام کی ہے تو اس حقیقت کو معلوم کرنا کہ واقعتاً اس شخص کووہ بات اللہ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف سے الہام کی گئی ہے، ایک ناممکن أمر ہے اور اس کا کوئی معیار(criteria) اس دنیا میں موجود نہیں ہے کہ جس پر اس کو پرکھا جا سکے کہ یہ بات اللہ ہی کی طرف سے الہام ہے یا شیطانی وساوس ہیں۔ لہٰذا کسی بھی بڑے سے بڑے عالم دین یا بزرگ وصوفی کا وجدان امت مسلمہ کے حق میں کسی شرعی دلیل کے مترادف نہیں ہے۔........مزید تفصیل


Viewing all articles
Browse latest Browse all 10

Latest Images

Trending Articles